"باقی ہیں باقیات، فانی ہیں فانیات"
- سید سہیل احمد
باقی ہیں باقیات میں، الله کی ذات اور اس کے صفات کی بقائیت کا حوصلہ ہے جو کہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ جبکہ فانی ہیں فانیات میں، انسانی حیات کی فانیت، جوانی کی عارضیت اور مادی دنیا کے زائل ہونے کی یاد دلاتا ہے۔
یہ شعر الفناء فی اللہ اور البقاء با اللہ کے مفہوم سے گزرتا ہے۔ الفناء کا مطلب ہے ذہنی، جسمانی، روحانی اور عرفانی تمام معیارات کو ختم کر دینا۔ یہ الفاظ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کے زمانے سے استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ اس مطلب میں اللہ کویا پیغام دیتا ہے کہ جتنا بھی دنیا میں کچھ ہے، وہ سب اللہ کے ہیں اور جب تک وہ چاہتا ہے، ہر چیز وجود میں رہے گی۔ اللہ کے علاوہ کوئی باقی نہیں۔
البقاء با اللہ کا مطلب ہے کہ اللہ کوئی حدود نہیں رکھتا۔ وہ ابدی ہے، بے انتہا ہے اور سب کچھ کو نگہبانی کرتا ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی باقی نہیں۔ جس طرح باقی ہیں باقیات اور فانی ہیں فانیات کہتے ہیں کہ یہ دنیا ایک وہم ہے، اسی طرح الفناء فی اللہ، و البقاء با اللہ کہنا مطلب ہے کہ صرف اللہ ہی باقی ہے، دنیا اور اس کے تمام معیارات فانی ہیں۔
اس پیام کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی ذاتی ذہنی، جسمانی، روحانی اور عرفانی پیدائش کو ختم کرکے صرف اللہ کی رضا کی خاطر جیتا ہوا زندگی گزارنی چاہیے۔
باقی ہیں باقیات اور فانی ہیں فانیات کی شاعری عموماً تصوّرِ ذات کے حقیقت پر بنی ہوتی ہے۔ اس مصیبت کی فکر کریں کہ کبھی کبھار عزیز موت کے احتمال سے بچ نہیں سکتے ہیں، مگر خداوند کی برکت سے باقیات کی شکل میں اُن کے عملوں، سبقوں اور قیمتی دعاؤں کا اثر، اُن کی شخصیت کو زندہ رکھتا ہے۔
الفناء في الله و البقاء با الله کے تصوّر سے مراد یہ ہے کہ جب آپ کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو آپ صرف خداوند کے حضور لوٹتے ہیں اور آپ کے عمل، قیمتی تجربے اور دعاؤں کی طاقت، آپ کے ایمان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
یہ نظم انسانی زندگی کی معنوی حقیقت کو بیان کرتی ہے جہاں زندگی کی اہمیت اور یہ کہ ہم کیسے اُسے بہتر بنا سکتے ہیں، پرشانیوں کے دور میں ہماری توجہ کو باقی رکھنے کو کہتی ہے۔ اِس کی شرحِ حال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی معنویت سے بخوبی واقف ہونا چاہئے، اور ہمیں خدا کی رضا اور محبت حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کو پرسکون بنانا ہوگا۔